Labels

January 27, 2014

ریاستی فورسز بلوچ نسل کشی کی جارحانہ پالیسیوں پر عمل پیرا ہیں، جمیل اکبر بگٹی

کوئٹہ (قدرت نیوز)نواب محمد اکبرخان بگٹی کے صاحبزادے نوابزادہ جمیل اکبربگٹی نے خضدار کے علاقے توتک سے اجتماعی قبر کی دریافت اور مسخ شدہ لاشوں کے ملنے کو انسانی المیہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں ہم نے بہت پہلے ہی اس خدشہ کا اظہار کیا تھا کہ جبری طورپر لاپتہ کئے جانیوالے بلوچ فرزندان کو غیر انسانی ظلم و تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد شہید کیا گیا ہو گا اور اسی طرح کی اجتماعی قبروں میں دفنا دیا گیا ہوگابس ان قبروں کا سراغ لگانا باقی ہے ’’آن لائن‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے نوابزادہ جمیل اکبر بگٹی نے کہا کہ ہم نے ریاست اور اس کے اداروں سے کبھی خیر کی کوئی توقع نہیں کی اور نہ ہی ہمیں کوئی امید ہے توتک واقعہ دلخراش ضرور ہے لیکن ہم نے بہت پہلے ہی یہ خدشہ ظاہر کیا تھا جو وقت کے ساتھ درست ثابت ہوا ریاستی فورسز بلوچ نسل کشی کی جارحانہ پالیسیوں پر عمل پیرا ہیں اور اس میں مزید تیزی لائی گئی ہے پنجگور ‘ ڈیرہ بگٹی ‘ نصیرآباد ‘ خضدار ‘ تربت سمیت مختلف علاقوں میں آپریشن چادر اور چار دیواری کے تقدس کی پامالی ماورائے آئین و قانون گرفتاریوں اور گمشدگیوں کے واقعات تسلسل کیساتھ جاری ہیں اور موجودہ حکومت سے کوئی گلہ اس لئے بھی نہیں کرتے کہ خود نیشنل پارٹی کے سینیٹر حاصل بزنجو خود یہ اعتراف کر چکے ہیں کہ انہیں صرف اقتدار ملا ہے اختیار ان کے پاس نہیں ملنے والی لاشوں کے بعد واضح ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت کے پاس کسی قسم کے اختیارات نہیں اور جس طرح ڈیرہ بگٹی جانیوالوں کو کشمور ‘ ڈیرہ موڑ پر روکا گیا ہے اس سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ موجودہ حکمرانوں کے ساتھ کس حد تک اور کتنے اختیارات ہیں ایک طرف تو بگٹی مہاجرین کو ان کے گھروں کو واپس جانے نہیں دیا جارہا اور دوسری جانب ڈیرہ بگٹی میں فورسز نے چادر اور چاردیواری کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے ہمارے گھر پر چھاپہ مارا نوابزادہ گہرام بگٹی سمیت 50 سے زائد افراد کو بلاجواز گرفتار کر لیا گیا گو کہ گہرام بگٹی کو کچھ گھنٹے رکھنے کے بعد چھوڑ دیا گیا لیکن دیگر افرا د ابھی بھی ریاستی اداروں کی تحویل میں ہیں ہمیں ان کی زندگیوں کے حوالے سے تشویش لاحق ہے کہ کہیں انہیں کسی قسم کا نقصان نہ پہنچایاجائے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ مرکزی اور صوبائی حکومت نے بگٹی مہاجرین کی آبادکاری کے حوالے سے بلند و بانگ دعوے کئے اور لوگوں کو گمراہ کرنے کیلئے آسرے دیئے اور لوگ حکومتی بیانات کو سامنے رکھتے ہوئے ڈیرہ بگٹی جانے لگے تو انہیں داخل ہونے نہیں دیا جارہا ہے جو قابل مذمت عمل ہے اور بلوچستان میں آج بھی ریاستی ظلم و جبر جاری ہے بلکہ اب تو ریاستی ادارے بلوچ قومی تحریک سے اس قدر خوفزدہ ہوگئے ہیں کہ انہوں نے بلوچستان کے تاثر کو زائل کرنے کیلئے فرقہ وارانہ دہشت گردی کو پروان چڑھایا ہزارہ برادری کو جس طرح بے دردی کیساتھ نشانہ بنایا گیا اس پر ہم بار بار کہتے رہے کہ یہ بلوچستان کیخلاف انتہائی خطرناک اور گھناؤنی سازش ہے ریاستی ادارے جان بوجھ کر بلوچستان کے حالات کو خراب کررہے ہیں حالانکہ بلوچ قوم کا فرقہ وارانہ دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی بلوچ قومی معاشرے میں فرقہ واریت انتہاء پسندی تنگ نظری اور تعصب پسندی کی کوئی گنجائش ہے ایک سوال کے جواب میں نوابزادہ جمیل اکبر بگٹی نے کہا کہ کسی زمانے میں دہلی سے تعلق رکھنے والا ایک شخص کوئٹہ موسم سرما میں گھومنے آیا کسی نے پوچھا سردی تو نہیں لگ رہی تو اس نے کہا کہ ٹھنڈیہاں تو کچھ بھی نہیں ٹھنڈ تو ہمارے ہاں ہوتی ہے البتہ کپکپی سے جان نکلے جارہی ہے ایسی ہی صورتحال پرویز مشرف کیساتھ ہے اتفاق کی بات ہے کہ وہ بھی انڈیا سے ہی تعلق رکھتے ہیں جو مکے لہرالہرکر کہتے تھے کہ ہم کسی سے ڈرتے ورتا نہیں ہوں لیکن اب بے چارے کا خوف کے مارے عالم یہ ہے کہ دل ڈوبا جارہا ہے ۔